فلسطین کی سرزمین قدیم زمانوں سے مختلف تہذیبوں، مذاہب اور ثقافتوں کا مرکز رہی ہے۔ اس کی تاریخ میں متعدد اہم واقعات اور تبدیلیاں رونما ہوئیں جنہوں نے اس خطے کی شکل و صورت کو متاثر کیا۔ یہاں ہم فلسطین کی تاریخ کے چند اہم ترین واقعات کا جائزہ پیش کریں گے۔
فلسطین کی تاریخ کے اہم واقعات
قدیم کنعانی تہذیب (تقریباً 3000 قبل مسیح)
فلسطین کی قدیم ترین معلوم تہذیب کنعانی تہذیب ہے جو تقریباً 3000 قبل مسیح میں یہاں موجود تھی۔ کنعانی لوگ زراعت، تجارت اور شہروں کی تعمیر میں ماہر تھے۔ ان کی زبان اور ثقافت نے بعد کی تہذیبوں پر گہرا اثر ڈالا۔ کنعانیوں نے اس خطے میں متعدد شہر آباد کیے جن میں یروشلم (یبوس) بھی شامل ہے۔
اسرائیلی مملکت کا قیام (تقریباً 1020 قبل مسیح)
تقریباً 1020 قبل مسیح میں، بنی اسرائیل نے فلسطین کے علاقے میں اپنی مملکت قائم کی۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور ان کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں یہ مملکت اپنے عروج پر پہنچی۔ یروشلم کو دارالحکومت بنایا گیا اور یہاں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی گئی۔ یہ دور مذہبی اور ثقافتی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
بابل کی اسیری اور ہیکل کی تباہی (586 قبل مسیح)
586 قبل مسیح میں، بابل کے بادشاہ نبوکدنضر دوم نے یروشلم پر حملہ کیا، ہیکل سلیمانی کو تباہ کیا اور یہودیوں کو اسیر بنا کر بابل لے گیا۔ یہ واقعہ یہودی تاریخ میں “بابل کی اسیری” کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس نے یہودی معاشرت اور مذہب پر گہرا اثر ڈالا۔
رومی دور اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش (63 قبل مسیح – 70 عیسوی)
63 قبل مسیح میں رومیوں نے فلسطین پر قبضہ کیا۔ اسی دور میں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی جو مسیحیت کے بانی ہیں۔ 70 عیسوی میں، رومی جنرل ٹائٹس نے یہودی بغاوت کو کچلتے ہوئے یروشلم کو تباہ کیا اور دوسرا ہیکل بھی مسمار کیا۔ یہ واقعہ یہودی تاریخ میں “دوسری ہیکل کی تباہی” کے نام سے مشہور ہے۔
اسلامی فتح اور خلافت راشدہ کا دور (636 – 661 عیسوی)
636 عیسوی میں، خلافت راشدہ کے دور میں مسلمانوں نے فلسطین کو فتح کیا۔ خلیفہ دوم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے یروشلم میں داخل ہو کر وہاں کے عیسائیوں سے امن کا معاہدہ کیا۔ اس دور میں فلسطین میں اسلامی ثقافت اور تعلیم کا آغاز ہوا اور یروشلم کو اسلامی دنیا میں خاص مقام حاصل ہوا۔
صلیبی جنگیں اور ایوبی سلطنت (1099 – 1291 عیسوی)
1099 عیسوی میں پہلی صلیبی جنگ کے دوران، یورپی عیسائیوں نے یروشلم پر قبضہ کر کے وہاں “مملکت یروشلم” قائم کی۔ 1187 عیسوی میں، مسلم جنرل صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کو دوبارہ فتح کیا اور ایوبی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس دور میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان متعدد جنگیں ہوئیں، لیکن بالآخر 1291 عیسوی میں صلیبیوں کا خطے سے خاتمہ ہوا۔
عثمانی دور (1517 – 1917 عیسوی)
1517 عیسوی میں، عثمانی سلطنت نے فلسطین پر قبضہ کیا اور یہ خطہ چار صدیوں تک عثمانی حکمرانی میں رہا۔ اس دور میں فلسطین میں امن و امان اور ترقی کا دور رہا۔ یروشلم اور دیگر شہروں میں اہم تعمیراتی کام ہوئے اور تجارتی سرگرمیاں فروغ پائیں۔
برطانوی انتداب اور اسرائیل کا قیام (1917 – 1948 عیسوی)
پہلی جنگ عظیم کے بعد، 1917 عیسوی میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا اور یہاں “برطانوی انتداب” کا آغاز ہوا۔ اس دوران یہودیوں کی بڑی تعداد نے یورپ سے ہجرت کر کے فلسطین میں آباد ہونا شروع کیا۔ 1947 عیسوی میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ 14 مئی 1948 عیسوی کو یہودی رہنماؤں نے ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا، جس کے بعد عرب-اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا۔
فلسطینی مزاحمت اور امن عمل (1948 عیسوی تا حال)
1948 عیسوی کے بعد سے فلسطینی عوام نے اپنی آزادی اور حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھی ہے۔ 1964 عیسوی میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کا قیام عمل میں آیا۔ 1993 عیسوی میں اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا، لیکن مکمل امن اور آزاد فلسطینی ریاست کا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔ موجودہ دور میں بھی فلسطینی عوام اپنی آزادی اور حقوق کے لیے کوشاں ہیں۔
*Capturing unauthorized images is prohibited*