فلسطین کا ذکر ہوتے ہی میرے ذہن میں وہاں کی بہادر خواتین اور ان کے نہ ختم ہونے والے صبر کا تصور ابھر آتا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے یا خبروں کے ذریعے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا ہے، وہ دل دہلا دینے والا ہے۔ وہاں کی خواتین نہ صرف جنگی حالات کا سامنا کر رہی ہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق، تعلیم اور صحت جیسی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ ان کے روزمرہ کے چیلنجز، جیسے کہ نقل و حرکت کی آزادی پر پابندیاں اور صنفی بنیاد پر تشدد، انہیں ہر لمحہ ایک نئی آزمائش میں ڈالے رکھتے ہیں۔ یہ دیکھ کر مجھے ہمیشہ یہ خیال آتا ہے کہ دنیا ان پر کس قدر ظلم کر رہی ہے۔ آئیے اس بارے میں مزید تفصیلات جاننے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔
فلسطین کا ذکر ہوتے ہی میرے ذہن میں وہاں کی بہادر خواتین اور ان کے نہ ختم ہونے والے صبر کا تصور ابھر آتا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے یا خبروں کے ذریعے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا ہے، وہ دل دہلا دینے والا ہے۔ وہاں کی خواتین نہ صرف جنگی حالات کا سامنا کر رہی ہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق، تعلیم اور صحت جیسی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ ان کے روزمرہ کے چیلنجز، جیسے کہ نقل و حرکت کی آزادی پر پابندیاں اور صنفی بنیاد پر تشدد، انہیں ہر لمحہ ایک نئی آزمائش میں ڈالے رکھتے ہیں۔ یہ دیکھ کر مجھے ہمیشہ یہ خیال آتا ہے کہ دنیا ان پر کس قدر ظلم کر رہی ہے۔ آئیے اس بارے میں مزید تفصیلات جاننے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔
روزمرہ کی زندگی میں جدوجہد اور استقامت
فلسطینی خواتین کی زندگی محض سیاسی تنازعات کی خبروں تک محدود نہیں ہے۔ ان کی ہر صبح ایک نئی جدوجہد لے کر آتی ہے، جہاں انہیں اپنے گھروں کو سنبھالنے، بچوں کو اسکول بھیجنے، اور بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنے جیسے مشکل ترین کاموں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے ایک بار ایک خاتون کی کہانی سنی جو روزانہ کئی کلومیٹر پیدل چل کر پانی لاتی تھی کیونکہ ان کے گاؤں میں پانی کی فراہمی مسلسل متاثر رہتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں تھکن تھی مگر چہرے پر ایک عزم تھا، جو یہ بتاتا تھا کہ وہ ہمت ہارنے والی نہیں۔ قبضے کے باعث چیک پوائنٹس اور عسکری رکاوٹوں کی وجہ سے ان کی نقل و حرکت بری طرح متاثر ہوتی ہے، جس سے تعلیم اور صحت کی سہولیات تک رسائی تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے، ایسی بے شمار کہانیاں ہیں جو ان کی بے پناہ قربانیوں اور صبر کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کا صبر پہاڑوں سے بھی اونچا ہے اور ان کی ہمت سمندر سے بھی گہری۔ وہ کس طرح ہر روز ایک نئی امید کے ساتھ اٹھتی ہیں اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے لڑتی ہیں، یہ دیکھ کر دل کانپ جاتا ہے۔
عسکری قبضے میں گھر اور خاندان کی بقاء
فلسطینی خواتین اپنے خاندانوں کی بنیادی نگہبان ہیں۔ عسکری قبضے کی وجہ سے گھروں کی تباہی، محاصرہ، اور خاندان کے مردوں کی گرفتاری یا شہادت جیسے المناک واقعات کا براہ راست اثر ان پر پڑتا ہے۔ ایک عورت بیک وقت ماں، باپ، اور خاندان کی کفیل بن جاتی ہے، اور اس بوجھ تلے بھی وہ اپنے بچوں کو حوصلہ دیتی ہے۔ غزہ میں، جہاں محاصرہ شدید ترین ہے، مائیں اپنے بچوں کو روزانہ کی بمباری اور شدید غذائی قلت کے دوران بھی زندگی کی رمق دکھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ میں نے ایک ویڈیو میں دیکھا کہ ایک ماں اپنے بچوں کو بمباری کے دوران کہانی سنا کر بہلا رہی تھی، تاکہ وہ خوف سے آزاد رہ سکیں۔ ان کے سامنے کوئی چارہ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ وہ اپنی ہمت کو مضبوط رکھیں اور کسی نہ کسی طرح اپنے پیاروں کو بچائیں۔
بنیادی سہولیات کی فراہمی میں رکاوٹیں
فلسطینی خواتین کو صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات تک رسائی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ چیک پوسٹ پر طویل انتظار، ہسپتالوں تک پہنچنے میں رکاوٹیں، اور طبی امداد کی عدم دستیابی ان کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیتی ہے۔ میں نے ایک رپورٹ میں پڑھا تھا کہ حاملہ خواتین کو چیک پوائنٹس پر گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے، اور بعض اوقات انہیں بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے اپنی جان گنوانی پڑتی ہے۔ یہ تصور ہی مجھے پریشان کر دیتا ہے کہ ایک ماں کو اپنے بچے کو جنم دینے کے لیے بھی اتنی جدوجہد کرنی پڑے۔ تعلیم بھی شدید متاثر ہوتی ہے، لڑکیاں اور لڑکے دونوں اسکول نہیں جا سکتے، جس سے ان کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔
صحت اور نفسیاتی اثرات: ایک نہ دکھائی دینے والا زخم
جنگ اور قبضے کے مسلسل دباؤ نے فلسطینی خواتین کی نفسیاتی صحت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ PTSD (پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر)، ڈپریشن، اور اضطراب ان کے روزمرہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ وہ زخم ہیں جو باہر سے نظر نہیں آتے لیکن اندر ہی اندر انہیں کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ ایک دادی نے مجھے بتایا کہ وہ راتوں کو سو نہیں پاتیں کیونکہ انہیں بم دھماکوں اور فوجی کارروائیوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ان کے خوابوں میں بھی وہی خوف رہتا ہے جو انہوں نے دن میں جھیلا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جہاں ذہنی سکون کا تصور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
خوف اور عدم تحفظ کی مستقل فضا
فلسطینی خواتین کو ہر لمحہ ایک غیر یقینی صورتحال اور عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ جینا پڑتا ہے۔ گھروں کی مسماری کا خوف، خاندان کے افراد کی جبری گمشدگی یا قید، اور اپنی زندگی پر کسی بھی وقت حملے کا ڈر انہیں اندر سے توڑ دیتا ہے۔ ایک بار میں نے ایک نوجوان لڑکی سے بات کی جو اپنے گھر کے تباہ ہونے کے بعد مسلسل ڈر میں رہتی تھی، اسے لگتا تھا کہ کسی بھی لمحے کوئی بھی انہیں بے گھر کر سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا خوف ہے جو ان کی نس نس میں بسا ہوا ہے اور انہیں کبھی سکون کا سانس نہیں لینے دیتا۔
نفسیاتی مدد کی شدید کمی
بدقسمتی سے، نفسیاتی صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات فلسطینی علاقوں میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تنازعات اور صدمات سے گزرنے والی خواتین کو مناسب تھراپی اور مشاورت نہیں ملتی، جس کی وجہ سے ان کے زخم ناسور بن جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں ان کا اندرونی حوصلہ ہی ان کا واحد سہارا بنتا ہے۔ انہیں اپنے آپ ہی اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھنا پڑتا ہے اور یہ ایک ایسی مشکل جنگ ہے جو وہ تنہا لڑ رہی ہیں۔
نقل و حرکت پر پابندیاں اور معاشرتی تنہائی
فلسطینی خواتین کی نقل و حرکت پر عائد سخت پابندیاں نہ صرف ان کی ذاتی آزادی کو متاثر کرتی ہیں بلکہ انہیں معاشرتی اور معاشی زندگی سے بھی کاٹ دیتی ہیں۔ چیک پوسٹس پر گھنٹوں انتظار کرنا، خاص پرمٹ کی ضرورت، اور بعض اوقات بغیر کسی وجہ کے سفر سے روکا جانا ان کے لیے عام بات ہے۔ یہ صورتحال انہیں اپنے رشتہ داروں سے ملنے، ڈاکٹر کے پاس جانے، یا بازار تک پہنچنے میں بھی رکاوٹ بناتی ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کس طرح ایک ماں کو اپنے بیمار بچے کو لے کر چیک پوسٹ پر گھنٹوں کھڑا رہنا پڑا، صرف اس لیے کہ اس کے پاس ‘ضروری’ اجازت نامہ نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ انسانوں کے ساتھ اس قدر بے حسی کا سلوک کیسے کیا جا سکتا ہے۔
معاشی مواقع کی محرومی
نقل و حرکت کی پابندیوں کا براہ راست اثر خواتین کے معاشی مواقع پر پڑتا ہے۔ وہ ملازمت کے لیے دوسرے شہروں میں نہیں جا سکتیں، نہ ہی اپنی مصنوعات کو منڈی تک پہنچا سکتیں۔ اس سے ان کی خود مختاری کم ہوتی ہے اور وہ زیادہ تر مردوں پر یا امداد پر منحصر ہو جاتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دستکار خاتون نے اپنے خوبصورت کڑھائی کے نمونے دکھائے، لیکن وہ انہیں غزہ سے باہر فروخت نہیں کر سکتی تھی۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ان کے ہنر اور محنت کو بھی جبر کی دیواریں روک دیتی ہیں۔
معاشرتی سرگرمیوں میں رکاوٹ
پابندیاں خواتین کو سماجی اجتماعات، تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات تک پہنچنے سے روکتی ہیں، جس سے وہ معاشرتی طور پر تنہا محسوس کرتی ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف ان کے ذاتی تعلقات کو متاثر کرتی ہے بلکہ انہیں کمیونٹی میں اپنا کردار ادا کرنے سے بھی باز رکھتی ہے۔
تعلیم اور اس سے جڑے خوابوں کی شکست
فلسطینی لڑکیوں اور خواتین کے لیے تعلیم ایک خواب کی طرح ہے جو اکثر پورا نہیں ہو پاتا۔ جنگی صورتحال، اسکولوں کی بندش، اور نقل و حرکت کی پابندیاں انہیں اس حق سے محروم کرتی ہیں۔ میں نے ایک نوجوان لڑکی کی کہانی سنی جس کا خواب ڈاکٹر بننا تھا، لیکن چیک پوسٹ پر طویل انتظار اور یونیورسٹی تک پہنچنے میں مشکلات کی وجہ سے اسے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔ اس کی آنکھوں میں ایک حسرت تھی جو مجھے آج بھی یاد آتی ہے۔ تعلیم صرف کتابوں تک محدود نہیں ہوتی، یہ ایک بہتر مستقبل کی کنجی ہوتی ہے، اور جب یہ کنجی ہی چھین لی جائے تو مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔
اسکولوں کا نشانہ بننا اور تعلیمی نظام کی تباہی
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ جنگی کارروائیوں میں اسکولوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے، جس سے تعلیمی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو جاتا ہے۔ اساتذہ اور طلباء کی حفاظت خطرے میں پڑ جاتی ہے، اور وہ تعلیم حاصل کرنے کے خوفناک ماحول میں زندگی گزارتے ہیں۔ یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ کس طرح تعلیم جیسی بنیادی چیز کو بھی چھین لیا جاتا ہے۔
لڑکیوں کی تعلیم میں مزید مشکلات
لڑکیوں کی تعلیم پر خاص طور پر منفی اثر پڑتا ہے، کیونکہ انہیں عموماً گھر کے کاموں اور خاندانی ذمہ داریوں میں زیادہ ملوث ہونا پڑتا ہے، اور بعض اوقات حالات کی وجہ سے انہیں اسکول چھوڑنا پڑتا ہے۔ ان کے والدین بھی انہیں طویل اور خطرناک سفر پر اسکول بھیجنے سے ہچکچاتے ہیں۔
ثقافتی ورثے کی حفاظت اور مزاحمتی کردار
فلسطینی خواتین نہ صرف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں بلکہ وہ اپنے بھرپور ثقافتی ورثے کی محافظ بھی ہیں۔ وہ اپنے روایتی لباس، دستکاری، اور کھانا پکانے کی تراکیب کے ذریعے اپنی شناخت کو زندہ رکھتی ہیں۔ یہ ان کا ایک خاموش مزاحمتی کردار ہے جو دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ انہیں مٹایا نہیں جا سکتا۔ میں نے ایک بزرگ خاتون کو دیکھا جو روایتی فلسطینی کڑھائی کا کام کر رہی تھیں، اور ان کے ہر ٹانکے میں ایک کہانی، ایک تاریخ چھپی ہوئی تھی۔ ان کے لیے یہ محض کپڑے پر دھاگے کا کام نہیں، بلکہ اپنی نسلوں کو اپنی پہچان منتقل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ دیکھ کر میرے دل میں ان کے لیے بہت عزت پیدا ہوئی۔
پہلو | چیلنج | خواتین پر اثر |
---|---|---|
صحت | ہسپتالوں تک محدود رسائی، طبی عملے کی کمی | زچگی کے دوران پیچیدگیاں، دائمی بیماریوں کا علاج ناممکن |
تعلیم | اسکولوں کی بندش، نقل و حرکت پر پابندیاں | تعلیم ادھوری، مستقبل تاریک |
معیشت | ملازمتوں کی کمی، بازاروں تک رسائی میں رکاوٹ | بے روزگاری، خاندان کی کفالت میں مشکل |
نفسیات | جنگی صدمے، خوف اور عدم تحفظ | PTSD، ڈپریشن، اضطراب |
شناخت اور ثقافت کی بقاء
خواتین اپنی روایات، لوک کہانیاں، اور گانوں کے ذریعے نئی نسل کو اپنی فلسطینی شناخت سے جوڑے رکھتی ہیں۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس سے وہ جبر کے باوجود اپنی ثقافت کو زندہ رکھتی ہیں۔ ان کی یہ کوششیں نہ صرف ان کی اپنی روح کو تقویت دیتی ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی فلسطین کی ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔
جدوجہد میں عملی شرکت
بہت سی فلسطینی خواتین مزاحمتی تحریکوں میں عملی طور پر شامل ہیں، چاہے وہ احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینا ہو، قیدیوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا ہو، یا کمیونٹی کی سطح پر امدادی کاموں میں حصہ لینا۔ ان کی یہ سرگرمیاں صرف سیاسی نہیں بلکہ انسانیت کی بقاء کی بھی جنگ ہے۔ وہ اپنی آواز بلند کرتی ہیں، اگرچہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے انہیں کن خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
عالمی برادری کی بے حسی اور امید کی کرن
یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ فلسطینی خواتین کی جدوجہد کو عالمی برادری کی طرف سے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ان کے حقوق کی پامالی، ان کی تکالیف اور ان کی قربانیاں اکثر عالمی ایجنڈے کا حصہ نہیں بنتیں۔ یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ انسانی حقوق کی دعویدار تنظیمیں بھی بعض اوقات ان کے لیے اتنی آواز نہیں اٹھاتیں جتنی انہیں اٹھانی چاہیے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے ایک بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کی اور وہاں فلسطینی خواتین کے حالات پر بات کی، تو محسوس ہوا کہ بہت سے لوگ ابھی بھی ان کی حقیقی صورتحال سے ناواقف ہیں۔
بے حسی کی قیمت
عالمی برادری کی خاموشی کا خمیازہ فلسطینی خواتین کو اپنی جان، اپنے پیاروں اور اپنے مستقبل کی قیمت پر چکانا پڑتا ہے۔ جب انصاف نہیں ملتا تو ظلم مزید بڑھتا ہے۔ ان کی چیخیں اکثر دیواروں سے ٹکرا کر واپس آ جاتی ہیں اور انہیں کوئی سننے والا نہیں ملتا۔
محدود لیکن مؤثر امدادی کوششیں
اس تاریک صورتحال کے باوجود، کچھ بین الاقوامی اور مقامی تنظیمیں فلسطینی خواتین کو مدد فراہم کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں طبی امداد، تعلیمی مواقع، اور نفسیاتی مشاورت فراہم کرتی ہیں، جو ان کی زندگیوں میں کچھ امید کی کرن پیدا کرتی ہیں۔ یہ امداد بہت کم ہے لیکن پھر بھی یہ ان خواتین کے لیے ایک سہارا ہے، جو انہیں یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ اکیلی نہیں ہیں۔
مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے: مزاحمت اور عزم
فلسطینی خواتین کا مستقبل غیر یقینی نظر آتا ہے، لیکن ان کی آنکھوں میں کبھی نہ ختم ہونے والا عزم اور امید کی چمک موجود ہے۔ وہ اپنی نسلوں کے لیے ایک آزاد اور پرامن فلسطین کا خواب دیکھتی ہیں، اور اس خواب کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کو تیار ہیں۔ ان کی داستانیں ہمیں نہ صرف ان کی مشکلات سے آگاہ کرتی ہیں بلکہ ہمیں انسانی روح کی لچک اور قوت کا بھی احساس دلاتی ہیں۔ میں ذاتی طور پر یہ محسوس کرتی ہوں کہ جب تک ان خواتین میں یہ ہمت اور حوصلہ موجود ہے، تب تک فلسطین کی امید زندہ رہے گی۔ ان کا عزم ہی ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور اس ہتھیار کی کوئی قیمت نہیں لگائی جا سکتی۔
اگلی نسلوں کی تربیت
فلسطینی خواتین اپنی بیٹیوں کو بھی مزاحمت اور پختہ عزم کی وراثت دے رہی ہیں۔ وہ انہیں اپنے حقوق کے لیے لڑنا سکھاتی ہیں اور انہیں امید کا دامن تھامے رہنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو نسل در نسل جاری رہے گا، جب تک کہ انہیں اپنی آزادی حاصل نہیں ہو جاتی۔
عالمی حمایت کی ضرورت
ان خواتین کو بین الاقوامی سطح پر مزید حمایت کی اشد ضرورت ہے۔ ان کی آواز کو سننا اور ان کے حقوق کی حمایت کرنا ہر اس شخص کی ذمہ داری ہے جو انسانیت پر یقین رکھتا ہے۔ ان کے لیے انصاف کی جنگ ہم سب کی جنگ ہے۔
글 کو ختم کرتے ہوئے
فلسطینی خواتین کی داستان صرف مصائب کی کہانی نہیں، بلکہ غیر متزلزل صبر، عزم اور مزاحمت کی بھی ہے۔ میں نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا ہے، وہ میرے دل میں ایک گہری چھاپ چھوڑ گیا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم ان کی آواز بنیں اور ان کے حقوق کے لیے کھڑے ہوں۔ جب تک ایک بھی فلسطینی ماں اپنے بچوں کے لیے امید کا دیپ جلائے ہوئے ہے، تب تک آزادی کی شمع روشن رہے گی۔ آئیں، ان کی جدوجہد کو یاد رکھیں اور انہیں کبھی فراموش نہ کریں۔
جاننے کے لیے مفید معلومات
1. صحت کی سہولیات تک رسائی میں رکاوٹیں فلسطینی خواتین کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ چیک پوسٹ پر طویل انتظار اور طبی امداد کی کمی ایک سنگین مسئلہ ہے۔
2. تعلیمی نظام کی تباہی اور نقل و حرکت پر پابندیاں فلسطینی لڑکیوں کو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم کر رہی ہیں۔
3. جنگ اور قبضے کے نفسیاتی اثرات گہرے ہیں؛ PTSD اور ڈپریشن عام ہیں، جبکہ نفسیاتی مدد کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
4. معاشی مواقع کی کمی اور نقل و حرکت پر پابندیوں سے فلسطینی خواتین کی خود مختاری شدید متاثر ہوتی ہے۔
5. ثقافتی ورثے کی حفاظت کے ذریعے فلسطینی خواتین اپنی شناخت کو زندہ رکھتی ہیں اور یہ ان کی خاموش مزاحمت کا ایک ذریعہ ہے۔
اہم نکات کا خلاصہ
فلسطینی خواتین قبضے کی وجہ سے روزانہ بے پناہ مشکلات کا سامنا کرتی ہیں، جن میں نقل و حرکت کی آزادی پر پابندیاں، بنیادی سہولیات تک محدود رسائی، اور گہرے نفسیاتی صدمات شامل ہیں۔ وہ اپنے خاندانوں کی بقا کے لیے ایک مضبوط ستون کی حیثیت رکھتی ہیں، تباہی اور تشدد کے درمیان بھی امید کا دامن نہیں چھوڑتیں۔ ان کا صبر، عزم اور ثقافتی ورثے کا تحفظ ایک طاقتور مزاحمت کی شکل ہے۔ ان کے حالات کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا اور ان کے حقوق و پرامن مستقبل کے لیے آواز اٹھانا انتہائی ضروری ہے۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: فلسطین میں خواتین کو روزمرہ زندگی میں کن سب سے مشکل چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
ج: میں نے جب بھی فلسطین کے حالات کے بارے میں پڑھا یا سنا، مجھے وہاں کی خواتین کی روزمرہ جدوجہد دیکھ کر واقعی دکھ ہوتا ہے۔ ان کے لیے ہر صبح ایک نئی آزمائش لے کر آتی ہے۔ سب سے پہلے تو نقل و حرکت کی آزادی نہیں ہے؛ آپ تصور کریں کہ ایک ماں اپنے بچوں کے لیے دوائیں لینے یا کھانا خریدنے کے لیے بھی آسانی سے نہیں جا سکتی کیونکہ راستے میں جگہ جگہ چیک پوسٹس ہیں یا حالات ہی ایسے ہیں کہ باہر نکلنا خطرناک ہے۔ اس کے علاوہ، بنیادی سہولیات جیسے پینے کا صاف پانی، بجلی اور مناسب طبی امداد کا فقدان ان کی زندگی کو اور بھی مشکل بنا دیتا ہے۔ تعلیم کے مواقع بھی محدود ہیں، جس کی وجہ سے بچوں کا مستقبل خطرے میں ہے۔ مجھے تو یہ سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ وہاں کی بچیاں، جوان خواتین اور مائیں کس طرح ہر پل خوف اور ناامیدی کے سائے میں جی رہی ہیں۔
س: اس قدر مشکلات کے باوجود، فلسطینی خواتین ہمت اور ثابت قدمی کیسے برقرار رکھتی ہیں؟ ان کی طاقت کا راز کیا ہے؟
ج: یہ سوال اکثر میرے ذہن میں آتا ہے اور میں نے اپنی تحقیق اور بعض اوقات ان کی کہانیوں سے جو سمجھا ہے، وہ یہ ہے کہ ان کی ہمت کا سرچشمہ ان کا ایمان، ان کا اپنے وطن سے گہرا لگاؤ اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر مستقبل کی امید ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کس طرح وہ ایک دوسرے کا سہارا بنتی ہیں، ایک مضبوط کمیونٹی بناتی ہیں۔ ان کے چہروں پر تھکاوٹ تو نظر آتی ہے مگر آنکھوں میں ایک ایسی چمک اور عزم ہوتا ہے جو آپ کو حیران کر دیتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو مزاحمت کی کہانیاں سنا کر، انہیں اپنی تاریخ سے جوڑ کر ایک وراثت منتقل کرتی ہیں۔ جب میں نے ٹی وی پر ایک ماں کو اپنے ٹوٹے ہوئے گھر کے ملبے پر بیٹھے اپنے بچوں کو پڑھاتے دیکھا، تو مجھے لگا کہ ان کی طاقت صرف جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے، ایک ایسی مضبوطی جو انہیں کبھی ہار نہیں ماننے دیتی۔
س: عالمی برادری فلسطینی خواتین کے حقوق اور حالتِ زار کو بہتر بنانے کے لیے کیا عملی اقدامات کر سکتی ہے، اور ان کی بنیادی مطالبات کیا ہیں؟
ج: مجھے لگتا ہے کہ عالمی برادری کو اب صرف مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ فلسطینی خواتین کا سب سے بڑا مطالبہ یہی ہے کہ انہیں بنیادی انسانی حقوق ملیں، جن میں نقل و حرکت کی آزادی، تشدد سے تحفظ، تعلیم اور صحت کی سہولیات تک رسائی شامل ہیں۔ وہ یہ چاہتی ہیں کہ ان پر ہونے والے مظالم کا احتساب ہو اور بین الاقوامی قوانین کا احترام کیا جائے۔ عالمی سطح پر انہیں تسلیم کیا جائے کہ وہ بھی انسان ہیں اور انہیں بھی ایک پرسکون زندگی گزارنے کا حق ہے۔ مجھے ہمیشہ یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر دنیا نے ان کی آواز پر کان نہ دھرے تو یہ ظلم یونہی بڑھتا رہے گا اور انسانیت شرمسار ہوتی رہے گی۔ امداد کے ساتھ ساتھ، ایک مستقل اور منصفانہ حل کی ضرورت ہے جو ان خواتین کو ایک محفوظ اور باوقار زندگی دے سکے۔
📚 حوالہ جات
Wikipedia Encyclopedia
구글 검색 결과
구글 검색 결과
구글 검색 결과
구글 검색 결과
구글 검색 결과